جزاک الله خیرا کا جواب

جزاک الله خیرا کا جواب
جزاک الله خیرا کا جواب

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 محرم 1442ھ- 28 اگست 2020 ء

’’جزاك الله‘‘ کے جواب میں کیا کہنا چاہیے؟

جزاک الله خیرا کا جواب

”جزاك الله خیرًا“  ایک دعائیہ جملہ ہے، محسن اور منعم سے اظہارِ تشکر اور اس کے احسان کے اچھے بدلے  کی ادائیگی کے لیے اس دعا  کی ترغیب حدیث میں وارد ہوئی ہے،  حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:  جس شخص کے ساتھ کوئی احسان کیا جائے اور وہ احسان کرنے والے کے حق میں یہ دعا کرے  ”جزاك الله خیرًا“ (یعنی اللہ تعالیٰ تجھے اس کا بہتربدلہ دے) تو اس نے اپنے محسن کی کامل تعریف کی ۔

“وعن أسامة بن زيد قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: “من صنع إليه معروف فقال لفاعله: جزاك الله خيرا فقد أبلغ في الثناء”. رواه الترمذي”. (مشکوۃ المصابیح)

اور اس جملہ کا جواب دینا واجب نہیں ہے، البتہ دعا  پر ”آمین“ کہہ لیا جائے اور ساتھ میں دعا  دینے والے کو بھی  کوئی دعا  یا یہی دعا  دے  دی جائے تو  یہ زیادہ بہتر ہے، جیسے ”آمین! وَإِیَّاکُمْ“ یا ”آمین! بَارَكَ الله“ یا ”آمین! فَجَزَاكَ الله خَیْرًا“ وغیرہ۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144107200296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

جامعہ سے صدقات، خیرات، عطیات اور زکوٰة وغیرہ کی مد میں تعاون کے لیے یہاں پر کلک کریں۔

پوسٹ بکس نمبر 3465 جمشید روڈ کراچی92-21-34913570+92-21-34121152+[email protected]

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

شمشاد خان نے ‘اِسلامی تعلیمات’ کی ذیل میں اس موضوع کا آغاز کیا، ‏اپریل 22, 2020

ناموں کو کاما سے علیحدہ کریں

معاشرت
>>

اخلاق و آداب

سوال نمبر: 66698

جواب نمبر: 6669828-Aug-2020 : تاریخ اشاعت

Fatwa ID: 959-959/M=10/1437
”جزاک اللہ “ کے جواب میں مزید کچھ کہنا لازم و واجب نہیں اگرجواباً کوئی دعائیہ جملہ مثلاً بارک اللہ یا ”جزاک اللہ“ وغیرہ کہہ دیا جائے تو حرج بھی نہیں، کہہ سکتے ہیں۔

جزاک الله خیرا کا جواب

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند

عیسائی
نوکرانی کی امداد کرسمس کے موقع پر

اپنے بارے میں کچھ بتاتا چلوں کہ میری عمر ۱۸/سال ہے اور میں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی اپنی ماں کے منھ سے دعا نہیں سنی ، جب بھی سنی ہے بد دعا ہی سنی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے کا تازہ واقعہ بیان کرتاہوں آپ مجھے بتائیے میں کیا کروں۔ مجھے چار مہینہ ہوگیا ہے، میں پانچ وقت کی نماز پڑھ رہا ہوں اور اس سے میرے گھر والے بھی خوش ہیں لیکن ابھی کچھ دنوں پہلے مجھے اپنی ماں سے ایک نئی بددعا ملی۔ ۔۔۔۔؟؟

ہم
کو شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ ساس اور سسر کی خدمت بہو پر فرض ہے یا نہیں (یعنی
میری بیوی پر میرے ماں اور باپ کی خدمت فرض ہے یا نہیں)؟(۲)اگر میری بیوی پر میرے
ماں باپ کی طرف سے اکثر دباؤ رہتا ہو (وہ اکثر اس سے ناراض رہتی ہے اور اس کے لیے
میرا فرض کیا ہے ) کیا میں بیوی کو الگ رکھوں جائز ہے، صحیح ہے؟برائے مہربانی میری
پریشانی کا حل سنت اور شرع کی روشنی میں بتائیں۔

سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! آپ سے پوچھنا یہ تھا کہ جزاک اللہ کا جواب اکثر ‘وایاکم’ دیا جاتا ہے، کیا یہ صحیح ہے اور کہیں سے ثابت ہے یا یہ کہنا غلط ہو گا؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ و خیرا

جواب: ” جزاک اللہ خیرا ” دعائیہ جملہ ہے، اس کا جواب دینا لازم نہیں، البتہ اگر کوئی دعائیہ جملہ جواب میں کہنا چاہے تو کوئی حرج بھی نہیں ہے۔” وایاکم ” کا معنی ہے ” اور اللہ آپ کو بھی بہترین بدلہ دے ” لہذا اس کو جواب کے طور پر کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Characters & Morals


Copyright © AlIkhalsonline 2020. All right reserved.

جزاک الله خیرا کا جواب


About Us  |  Contact Us  | Feedback


Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

ناموں کے درمیان انگریزی کوما ( , ) کا استعمال کریں

‘اسلام اور عصر حاضر’ میں موضوعات آغاز کردہ از محمد اجمل خان, ‏فروری 21، 2018۔

رقم حمدِ خدا ہے لوحِ دل پر،،، لبوں پر مدحتِ خیرالبشرﷺ ہے

’’جزاک اللہ خیرًا‘‘کے مسنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور ان کلمات کو موقع بر محل ادا کیا جا سکتا ہے۔

تحریر: الشیخ ابو محمد نصیر احمد کاشف حفظہ اللہ

اسلام ایک مکمل دین اور ضابطۂ حیات ہے، جس میں ہراصولی و جزئی معاملے کے بارے میں رہنمائی موجود ہے۔ مسلمان تو اس کا دعویٰ کرتے ہی ہیں اور اپنے اس دعویٰ میں سچے بھی ہیں، تاہم اس بات کا اعتراف غیر مسلموں کو بھی ہے۔

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے مشرکین نے کہا: ہم دیکھتے ہیں کہ تمھارے نبی (ﷺ) تمھیں ہر بات کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ قضائے حاجت (کے آداب) کی بھی، تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں! بیشک انھوں نے ہمیں دائیں ہاتھ سے استنجا کرنے سے منع کیا ہے اور قضائے حاجت کے وقت قبلہ رخ ہونے سے منع کیا ہے اور گوبر اور ہڈی کے استعمال سے منع کیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کوئی تین پتھروں سے کم سے استنجا نہ کرے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الاستطابۃ، رقم الحدیث:۲۶۲ [۶۰۷])

یعنی اسلام کے ابتدائی ادوار ہی سے سب میں یہ بات معروف و مشہور ہے کہ اسلامی تعلیمات ہر مسئلے کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ والحمد للہ

جزاک الله خیرا کا جواب

کچھ عرصے سے یہ بات زیر بحث ہے کہ کسی بھائی کے تعاون پر جب اُسے دعائیہ کلمات: جزاک اللہ خیرًا کہے جائیں تو بعض احباب اسے چند وجوہ کی بنا پر غیر صحیح قرار دیتے ہیں۔

اس سلسلے میں دلائل کے اعتبار سے راجح موقف کیا ہے؟ اس کی تفصیل حسبِ ذیل ہے:

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے عاریتاً ہار لیا جو گم ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت ہو گیا اور لوگوں کے پاس پانی نہیں تھا، انھوں نے (بغیر وضو) نماز پڑھ لی۔ آپ ﷺسے شکایت کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری۔ (اس موقع پر) سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: ’’جَزَاکِ اللہِ خَیْرًا ‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ دے۔

واللہ! جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہوا جو آپ کے لیے تکلیف کا باعث ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے خیر پیدا فرما دی۔

(صحیح البخاري، کتاب التیمم۔ باب إذا لم یجد ماءً ولا ترابًا، رقم الحدیث:۳۳۶، صحیح مسلم، کتاب الحیض، باب التیمم رقم الحدیث:۳۶۷/۱۰۹)

اس حدیث سے روزِ روشن کی طرح واضح ہو گیا کہ ان کلمات کے ساتھ دعا دینا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں عہدِ نبوت میں بھی معروف تھا۔

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد (خنجر سے) زخمی ہوئے، میں ان کے پاس گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تعریف و توصیف بیان کرنے لگے اور کہا:

’’جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا فرمائے۔

تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ’رَاغِبٌ و رَاھِبٌ……‘‘ مجھے اللہ تعالیٰ سے امید بھی ہے اور میں خوف زدہ بھی ہوں۔

(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب الاستخلاف و ترکہ رقم الحدیث:۱۸۲۳/۱۱)

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک طویل حدیث بیان کرتی ہیں جس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک اعرابی سے کھجوروں کے بدلے میں اونٹ خریدے۔ گھر میں کھجوریں دستیاب نہ ہوئیں، اعرابی کو بتایا تو وہ دھوکے کا واویلا کرنے لگا۔

اس پر آپ ﷺ نے سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہاسے کھجوروں کا پوچھ کر اعرابی کو ان کے پاس بھیجا۔

بعد میں جب اعرابی رسول اللہ ﷺ کے پاس سے گزرا تو کہنے لگا:

’’جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا فَقَدْ أَوْفَیْتَ وَ أَطْیَبْتَ۔‘‘ اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا دے، آپ نے پورا پورا اور خوب عمدہ ادا کر دیا۔

(مسند أحمد ۶/ ۲۶۸۔ ۲۶۹ و في نسخۃ ۴۳/ ۳۳۷۔ ۳۳۹، رقم الحدیث:۲۶۳۱۲، وسندہ حسن، محمد بن إسحاق صرح بالسماع عندہ)

تعامل صحابہ اور تقریری حدیث سے مذکورہ مسئلہ صراحتاً ثابت ہوجاتا ہے۔

اسی سلسلے میں بڑی واضح اور صریح دلیل درج ذیل ہے:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((جَزَاکُمُ اللہُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ خَیْرًا، وَ لاَ سِیَّمَا آلَ عَمْرِوبْنِ حَرَامٍ وَ سَعُدُ بْنُ عُبَادَۃَ ۔)) ’’اے انصار! اللہ تعالیٰ تمھیں جزائے خیر دے۔ خاص طور پر آل عمرو بن حرام اور سعد بن عبادہ کو۔ (السنن الکبریٰ للنسائی ۳۶۱/۷ رقم الحدیث:۸۲۲۳ و في نسخۃ:۸۲۸۱ وسندہ صحیح)

علاوہ ازیں ان احادیث سے بھی ہمارا مطلوبہ مفہوم واضح ہوتا ہے:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ((لاَ یَشْکُرُ اللہَ مَنْ لاَ یَشْکُرُ النَّاسَ۔)) ’’جو شخص لوگوں کا شکریہ ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن أبي داود، کتاب الأدب، باب فی شکر المعروف، رقم الحدیث:۴۸۱۱، سنن الترمذي کتاب البر و الصلۃ۔ باب ماجاء فی الشکر لمن أحسن إلیک، رقم الحدیث:۱۹۵۷، و إسنادہ صحیح و صححہ ابن حبان:۳۴۰۷)

جہاں تک ان کلمات کی ترغیب والی روایات کا ذکر ہے، ان کی مختصر تحقیق درج ذیل ہے:

اثرِ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ:

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لَوْ یَعْلَمُ أَحَدُکُمْ مَا لَہٗ فِيْ قَوْلِہٖ لِأَخِیْہِ: جَزَاکَ اللہُ خَیْرًا لَأَکْثَرَ مِنْھَا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ۔‘‘ اگر کسی کو علم ہو جائے کہ اپنے بھائی کو جزاک اللہ خیراً کہنے کا کتنا اجر و ثواب ہے تو تم کثرت سے ایک دوسرے کو یہ کلمات کہو۔ (مصنف ابن أبي شیبۃ ۷۰/۹۔۷۱ ح ۲۶۵۱۰)

اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے راوی طلحہ بن عبید اللہ بن کریز کی ملاقات ثابت نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے سیدنا ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ (المتوفی:۵۰ھ) سے اس کی روایت کو منقطع قرار دیا ہے، جبکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی وفات ۲۳ھ ہے۔ (المطالب العالیۃ ح ۳۵۷)

حافظ سیوطی نے بھی طلحہ بن عبید اللہ بن کریز عن عمر (رضی اللہ عنہ) کی ایک سند کو منقطع قرار دیا ہے۔ دیکھئے جمع الجوامع (۲۴/۱۲ ح۲۲۵۰)

الجامع لعبد اللہ بن وھب (۱۷۴) میں اس کی ایک دوسری سند ہے، لیکن اس کے راوی حسن بن خلیل کے حالات نہیں ملے جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔

ان روایات کے ضعف کی وجہ سے صرف ان کلمات کی بیان کردہ فضیلت ثابت نہیں ہوتی، تاہم ان کلمات کے مسنون ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور انھیں موقع بر محل ادا کیا جا سکتا ہے۔ والحمد للہ

تفصیل کے لئے دیکھئے ماہنامہ الحدیث 121 ص 33

ہماری موبائل ایپ انسٹال کریں۔ تحقیقی مضامین اور تحقیقی کتابوں کی موجودہ وقت میں ان شاء اللہ سب سے بہترین ایپ ہے، والحمدللہ۔

Android App –or– iPhone/iPad App

IshaatulHadith Hazro © 2020

جزاک الله خیرا کا جواب
جزاک الله خیرا کا جواب
0


دیدگاه‌ها

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *

جواب آزمايش هاي كتاب آزمايشگاه يازدهم x بخوانید...